مسلم منشور: ملک کے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوکر تابناک مستقبل کی تلاش کریں
ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے اب وقت آ گیا ہے کہ خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں۔آج مسلمانوں کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ وہ خوف وہراس کی زندگی جی رہے ہیں۔ ان کی ترقی دوسری قوموں کے مقابلے نہ کے برابر رہ گئی ہے۔ اور مسلمان مستقبل کے بارے میں بے یقینی کی حالت میں ہے۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ وہ صرف اتنا سوچ رہا ہے کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی 2024میں اقتدار میں واپس آجاتی ہے تو کیا ہوگا؟ کیا یہ مسلمانوں کے لیے قیامت کا آغاز ہو گا؟، اس طرح کے سوالات مسلمانوں کے درمیان ہر جگہ اٹھائے جا رہے ہیں۔ چاہے وہ سڑک پر عام مسلمان ہوں یا مسلم دانشوران ہوں،سبھی اس پر بات کر رہے ہیں۔
اگر آپ ان پریشان حال مسلمانوں سے پوچھیں گے کہ کیا وہ شمال مشرف کی ان تین ریاستوں کے(تریپورہ، میگھالیہ اور ناگالینڈ) جغرافیہ اور آبادی کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ جہاں حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو تسلی بخش جواب نہیں ملے گا۔
یہ جہالت کی حالت اس لیے نہیں ہے کہ عام مسلمان سیاست سے نا بلد ہیں، بلکہ معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی اور مذہبی دونوں معاملوں میں اپنی قیادت کے لئے ایسا انتخاب کیا ہے، جو انہیں صحیح رہنمائی ہی نہیں کر رہا ہے۔ ہندوستان میں بہت کم ایسی تنظیمیں ہیں جو مسلمانوں کے درمیان ورکشاپ کر کے انہیں ملکی حالات سے روشناس کرا رہی ہیں۔ اور سیاست کو سمجھنے کے لئے پروگرام منعقدکرا رہی ہیں۔ اسی طرح نوجوان مسلمانوں کو انٹرپرینیورشپ اور کاروبار کی دیگر مہارتوں سے روشناس کرانے کے پروگراموں کی کمی ہے۔ مسلمانوں کے خوف کی جڑ ایسی ہی جہالت اور گمراہی سے پیدا ہوتی ہے۔ ان سب کے باوجود ہمیں مایوس نہیں ہو چاہئے کیونکہ ایک صوفی کہاوت ہے کہ ’’جہاں بیماری ہے وہیں اسکا علاج بھی ہے‘‘۔
برائے مہربانی اب مزید شکار نہ ہوں
مسلمانوں کے درمیان بحث کا سب سے زیادہ مناسب اور مستقل موضوع یہ ہوتا ہے کہ انہیں بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے کاروبار خطرے میں ہیں، ہمارے ساتھ امتیازی سلوک عروج پر ہے، ہمارا مستقبل تاریک ہے… ہمارا اسلام خطرے میں ہے۔اورایسی ہی بہت سی باتیں جن کی فہرست طویل ہے۔ اکثر ان مباحثوں علامہ اقبال کے مشہور اشعار کا حوالہ دے کر بڑھایا جاتا ہے، جنہوں نے برطانیہ کے بعد کے مسلمانوں کو راہ دکھانے کے لئے بہت سے متفق یا متضاد خیالات پیش کیے ہیں۔ قدیم عربی شاعر ابو العلاء المعری پر ان کی نظم کا ایک شعر اس طرح ہے:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
جس کا مطلب یہ ہے کہ سن لو فطرت کا اشارہ تقدیر کے مفتی کا وہ فتویٰ ہے جو اس نے ازل سے جاری کیا ہوا ہے کہ ناتوانی اور کمزوری کا انجام موت کے سوا اور کچھ نہیں۔ جو کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں وہ طاقتور لوگوں کا شکار بن جاتے ہیں اور دنیا میں ہر طرح کے منصب و اعزاز سے محروم رہ کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔
اقبال کے مصرعے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ کمزور ہونا یا محض شکار کی طرح محسوس کرنا، خواہ انسان کے لیے ہو یا برادری کے لیے، موت کا باعث بنتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ ایک ابدی نصیحت ہے کہ انہیں ’’شکار ہونا‘‘محسوس کرنا بند کرنا ہوگا اور پھر ارباب حل و عقد سے اپنے مسائل کے لئےبات کرنی ہوگی۔ جو مختلف فائدے کے لئے مسلمانوں کو شکار بناتے ہیں۔مسلمانوں کو اپنے شکار ہونے سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ وہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ ان کی آواز میں اس اعتماد کی عکاسی ہونی چاہیے۔ انہیں جمہوریت میں اپنے حقوق کے لئے آواز کو بلند کرکے رہنا چاہئے۔
کیا صرف مسلمان ہی مسلمانوں کا لیڈر ہوگا؟ نہیں
تھنک ٹینک کے سروے کے مطابق ہندوستان کے 90 اضلاع، 100 لوک سبھا حلقوں اور 720 اسمبلی سیٹوں پر مسلمانوں کی موجودگی فیصلہ کن ہے۔ وہ ریاستی سطح پر بھی کافی تعداد میں ہیں۔ اس کے باوجودمسلمان خود کو ستائے ہوئے محسوس کرتے ہیں اور ان کی تمام شکایات برقرار رہتی ہیں۔ 2013 میں یوپی اسمبلی ہاؤس میں 67 ایم ایل اے تھے جب مظفر نگر فسادات ہوئے اور مسلمانوں کو قتل اور ان کے گھروں سے بے گھر ہونے کا سامنا کرنا پڑا۔ مزید یہ کہ اس وقت کے سب سے مضبوط مسلم رہنما اعظم خان میرٹھ مظفر نگر حلقوں کے وزیر انچارج تھے۔لیکن کسی نے مضبوطی سے اس پر بات تک نہیں رکھی۔ مسلم عوام، مذہبی و سیاسی قیادت کی گرفت میں ہے،لیکن یہ لوگ صرف مسلمانوں کا شکار کرتے ہیں۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات اور اس کے بعد کے اسمبلی اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں مسلم رہنماؤں کے کہنے پرسب کچھ کیا۔لیکن نتیجہ آج ان کی ”گھبراہٹ” ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کو سب سے اہم چیز جو ترقی کرنی ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ایسے ہندو امیدواروں کو جن کا ریکارڈ ٹھیک ہو، جو سماج کے لئے کام کرتے ہوں انہیں منتخب کرنے میں ہچکچاہٹ سے گریز کریں، درحقیقت مسلمان ایسا کرتے بھی ہیں اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور ایسے ”اچھے لیڈروں“ کے ساتھ باقاعدہ رابطہ قائم کیا جانا چاہیے اور انھیں تہواروں اور تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے مسلم علاقوں میں مدعو کیا جانا چاہیے۔
جذباتی مذہبی مسائل پر توجہ نہ دیں
مسلمانوں کو سب سے زیادہ پسماندہ کرنے میں ان ان لوگوں کا ہاتھ ہے۔جو لوگ اسلام کے بارے میں اپنی ناقص رائے سے ان کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔مذہب سے جڑے مسائل اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ مسلمان سب کچھ بھول کر ان کے نعروں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اگر ملک میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو کچھ نام نہاد مذہبی رہنما جن میں سے زیادہ تر مولانا کے لقب سے داڑھی والے ہوتے ہیں، اسکرین پر جنون کو تیز کرنے کے لیے ٹی وی پر نظر آتے ہیں۔ اکثروہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو اس طرح کی بحثوں کو بڑھاوا دیتے ہیں اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ مسلمانوں کوایسے جذباتی مذہبی مسائل اور ایسے مولانا کو نظر انداز کرنا ہوگا -۔
سماجی کام، چیریٹی
مسلمانوں کے پاس سماجی کام کرنے کا بہت بڑا پلیٹ فارم موجودہے۔ اور اس معاملہ میں ان کے پاس فنڈ کی بھی کمی نہیں ہے۔ اسلام نے زکوۃ کا جو نظام بنایا ہے، اس سے مسلمانوں کے معاشی حالات مستحکم ہو سکتے ہیں۔ آج مسلمانوں کے کتنے سماجی گروپس یا این جی اوز ہیں جنہیں مسلمان چلاتے ہیں یا مسلم اکثریتی ممبران ہیں اوروہ ہندوستانی سماج کے تمام طبقات میں سماجی کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح کتنے مسلم خیراتی ادارے – جو زکوٰۃ جمع کرتے ہیں۔لیکن اس کا نتیجہ کیا ہے۔یہ سب پر عیاں ہے۔ زکوٰۃ کاجو روپیہ آتا ہے اسکا جواب بہت مایوس کن ہے۔ مسلمانوں کو اس پر فوری غور کرنا چاہیے۔
تعلیم، کاروبار اور مستقبل کی تلاش
مسلمانوں نے ایک اہم شعبے میں اچھا کام کیا ہے: تعلیم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کی طرف رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مسلم نوجوان مختلف شعبوں میں مسلسل ترقی کر رہے ہیں، چاہے وہ سول سروسز، مسلح افواج، کارپوریٹ دنیا وغیرہ ہوں۔ کچھ مسلمانوں نےجن میں خواتین بھی شامل ہیں، کامیاب کاروباری کے طور پر اپنی شناخت بنائی ہے۔ مسلمانوں کو اس دھاگے کو مکمل لباس میں بُننا ہوگا۔ انہیں پورے ملک میں کاروباری اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ انہیں مسلم محلوں میں کاروباری ورکشاپس کا اہتمام کرنا چاہیے جہاں کمیونٹی کے کامیاب رہنما اپنی مہارت اور تجربات کی روشنی میں معلومات دیں۔ اس سے ملک کے نوجوانوں کو حوصلہ ملے گا اور وہ اپنا خوف ختم کر سکے گا اور اپنا مستقبل ایک معزز ہندوستانی جیسا روشن دیکھ سکے گا۔